اب دامن _ امید بھی گردوں کے دہن میں
خاموش فراموش آشفتہ صفت ہے
بیزار ہے ڈوبا ہوا بیزار گماں میں
الجھے ہوے رازوں کے کسی دور_ نہاں میں
الجھے ہوے رشتوں میں تغافل کے نشاں میں
الجھے ہوے خوابوں کے خرابوں کے جہاں میں
آزاد، جہانزاد ، بیباک کہاں ہیں
عرش کو چھوٹے ہوے آفاق کہاں ہیں
اب خاک بھی اڑتی ہی نہیں زور_ ہوا سے
اب رنگ بھی مانوس نہیں جوش_ حنا سے
ہر دور ہے خودغرض خداؤں کا معم
ہر رات ہے ڈوبی ہوئی تآریک گناہ میں
No comments:
Post a Comment